تصویر میں دائیں جانب موجود شخص امریکہ سے تعلق رکھنے والا جوزف اسٹس ہے( Joseph Estes)اپنے کیریئرکا آغاز ایک ایسے تاجر سے کیا جو انتہا درجے کا متعصب عیسائی تھا مسلمانوں پرطنزوتضحیک اس کا وطیرہ تھا۔( اللہ کی پناہ ۔ کعبۃ اللہ کے بارے میں ) از راہ طنز اس کا کہنا تھا کہ :
مسلمان صحراء میں پڑے ایک سیاہ صندوق کی عبادت کرتے ہیں ۔
تصویر میں بائیں جانب شخص بلاد حرمین سے تعلق رکھنے والا عبد اللہ القصیمی ہے۔
آغاز میں کمال درجے کا داعی اورمبلغ تھا۔
یہاں تک کہ اسے ابن تیمیہ دووم کا لقب دیا گیا ۔
ان کی مشہور زمانہ کتاب
« الصراع بين الإسلام والوطنية »
"اسلام اور نیشنلزم کا ٹکراؤ"
اہل علم میں اس کتاب کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔
کتاب کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس وقت حرم مکی کے امام نے اس کے بارے میں پورا قصیدہ پڑھا تھا ۔ مشہور عالم دین صلاح منجد نے ذکر فرمایا ہے کہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ : قصیمی نے اس کتاب کو لکھا گویا کہ جنت کا مہر ادا کیا ۔
1980 میں اس وقت قصیمی اچانک ایک سو اسی درجے پھر گیا جب بیروت میں ایک عیسائی لڑکی کے ساتھ اسے عشق ہوگیا ، اس کے بعد اس نے بے دین گمراہ افکار کا دفاع شروع کیا اور کتاب لکھی ،،
" يكذبون لكي يروا الاله جميلا "
"وہ جھوٹ اس لیے بولتے ہیں کہ معبود کو خوبصورت دیکھیں"
اسی طرح
« هذي هي الأغلال »
یہی وہ زنجیریں ہیں(کتاب میں صوم وصلاۃ اور دیگر عبادات کو گلے کے طوق کے ساتھ تشبیہ دی ہے )
پھر اس نے اپنے ملحد ہونے اور اللہ کے وجود سے انکار کا اعلان کردیا۔
1996میں زمین اس کے وجود سے پاک ہوئی۔
اسی دوران جوزف اسٹس نے اپنے خاندان سمیت ایک مصری مبلغ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا،یوں ایک متعصب عیسائی سے جوزف امریکہ میں اسلام کا داعی بنا،اپنا نام تبدیل کرکے یوسف رکھا ،اور اس کے ہاتھوں سینکڑوں افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔
دلوں کو پھیرنے والی ذات کے کمالات
*ابتداء ہی سب کچھ نہیں بلکہ انجام اور خاتمہ جاہ عبرت ہے
یااللہ ہمارا خاتمہ بالاسلام اور بالایمان اور بالخیر فرمانا آمین...