🌹بیٹی کا گھر ...🌹
نانی مرحومہ کی بہن ، بڑی نیک سیرت تھیں ؛ رات کو نرم بستر پر نہیں سوتی تھیں کہ مبادا آنکھ لگ جائے اور میری نمازِ تہجد رہ جائے ۔
اِنھوں نے بیٹی کا رشتہ اپنے بھانجے ( بہن کے بیٹے ) کو دیا ۔
بیٹی جب خالہ کے گھر آئی تو کچھ معاملات میں خالہ سے سخت اختلاف ہوگیا ، اور اس نے ایسی صورت اختیار کی جو بیٹی کے لیے ناقابل برادشت ہوگئی ۔
اس نے والدہ کو پیغام بھیجا:
اماں ! جلدی آؤ اور میرا معاملہ نپٹا کے جاؤ ۔
میں گھر کے سارے کام بھی کروں ، اور دن رات خالہ سے کوسنے بھی لوں ، یہ مجھ سے نہیں ہوتا ۔
والدہ نے جب بیٹی کا دکھ بھرا پیغام سنا تو اس کے سسرال آئی ۔
بیٹی کہتی ہے:
امی نےآکر میرے گھر ظہر پڑھی ، لیکن خالہ کے معاملے میں مجھ سے کوئی بات نہیں کی ، میں اس انتطار میں تھی کہ مجھ سے بات کریں گی اور میرا دکھ درد سنیں گی ، اور میں ان کے سامنے دل کی خوب بھڑاس نکالوں گی ؛ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔
انتظار کرتے عصر کا وقت ہوگیا ، انھوں نے نماز پڑھی پھر خاموش ......... حتیٰ کہ مغرب ہوگئی ۔
وہ نماز پڑھ کر اپنی بہن کے پاس بیٹھے ، کھانا لگا تو میں نے کیا دیکھا کہ دونوں بہنیں باری باری ایک ہی آم چوس رہی ہیں ، ایک بہن روٹی کا نوالہ منھ میں ڈالتی ہے تو ساتھ آم چوستی ہے ، دوسری بہن بھی نوالہ لے کر وہی اپنی بہن کا جھوٹھا آم چوستی ہے ؛ ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتی ہیں میرے معاملے کا ذکر تک نہیں ۔
میں نے یہ منظر دیکھ کر خود سے کہا میری ماں کر بیٹھی بات ؛ جو بہن کا نوالہ تک چبارہی ہے وہ اس کے خلاف باتیں کیسے سنے گی ۔
خیر جوں توں کرکے رات گزری ، صبح ماں گھر جانے لگی تو صرف مجھے اتنا کہا:
اپنی خالہ کا خیال رکھا کرو ، وہ میری بڑی بہن ہے ۔
عقل مند ماں کے رویے نے بیٹی کے انداز کو اتنا بدل دیا کہ:
آج تقریبا سات سال ہونے کو ہیں وہی خالہ صاحب فراش ہے ، خود رفع حاجت سے بھی قاصر ہے ، مگر وہی بہو اُسے سنبھال رہی ہے ، بول و براز بھی صاف کرتی ہے ، نہلاتی دھلاتی بھی ہے ، کھانا بھی کھلاتی ہے ......... اور یہ سب کام اپنے لیے باعث سعادت سمجھتی ہے ۔
بیٹیاں بیاہ دینے کے بعد اُنھیں جذبات سے نہیں ، عقل مندی سے بسانا چاہیے ۔۔
بیٹی کے گھر کوئی مسئلہ بنے ، یا اپنے گھر ؛ اِسے تھوڑا وقت دیا کریں ۔
وقت ، گھریلو مسائل کا بہترین مرہم ہے ؛ جیسے جیسے وقت گزرتاجاتاہے مسائل حل ہونے کے قریب ہوتے جاتے ہیں ۔